china hacking us companies

china hacking us companies

چین کی فوج نے ایک امریکی رپورٹ کی مذمت کی ہے جس میں چینی فوج پر ہیکنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

چین کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس رپورٹ نے کوئی ’تکنیکی ثبوت‘ فراہم نہیں کیے جب اس نے آئی پی ایڈریس کو چین کے ایک فوجی یونٹ سے منسلک کیا۔

اس رپورٹ میں شھنگھائی کی ایک بلند و بالا عمارت کو چینی فوج کی جانب سے ممکنہ ہیکنگ کا مرکز قرار دیا ہے جہاں سے کئی امریکی کمپنیوں پر ہیکنگ کے لیے حملے کیے گئے۔

امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے بارہا چین سے سائبر یا انٹرنیٹ کے ذریعے حملوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

چین کی وزارتِ دفاع کے بیان کو اس کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا اور اس میں کہاگیا ہے کہ کئی ہیکنگ کے حملے چوری شدہ آئی پی ایڈریس استعمال کر کے کیے جاتے ہیں۔

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس رپورٹ نے یہ نہیں وضاحت کی کہ یہ کس قسم کے حملے کو ہیکنگ قرار دیتی ہے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ روزانہ کی جمع شدہ معلومات کو غلط طور پر جاسوسی قرار دیا گیا ہے۔

’سائبر جاسوسی‘ نامی اس رپورٹ جسے منگل کو جاری کیا گیا میں اجرا کرنے والی کمپنی ’مینڈیانٹ‘ نے ہزاروں ایسی معلومات پر بات کی ہے جس میں ڈیٹا میں دخل اندازی کی کوششیں کی گئی ہیں جنہیں اس رپورٹ نے ’انتہائی درجے کا مستقل خطرہ‘ قرار دیا ہے۔

’سائبر جاسوسی‘ نامی اس رپورٹ کو منگل کو جاری کیا گیا

ان معلومات کی بنیاد پر اس رپورٹ نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ گروہ چین میں ہیں اور چینی حکومت ان کے بارے میں باخبر ہے۔

ان سب گروہوں میں سے سب سے بڑا اس رپورٹ کے مطابق ’اے پی ٹی 1‘ ہے جسے اس نے ’چوری کردہ معلومات کے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا‘ قرار دیا ہے۔

مینڈیانٹ نے الزام عائد کیا ہے کہ ’اے پی ٹی 1‘ کو اس نے شنگھائی میں واقع ایک عمارت میں پایا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ چین کی پیپلز رپبلک آرمی یا قومی فوج کے یونٹ 63918 کا قیام بھی اسی ہی علاقے میں ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ’اے پی ٹی 1‘کے پاس کئی سو اہلکار ہیں جو انگریزی روانی سے بولتے ہیں۔ اس نے ایک سو اکتالیس کمپنیوں میں ہیکنگ کی ہے جس میں اس نے کمپنیوں کے بنیادی خاکے، کاروباری منصوبوں کی معلومات، قیمتوں کے ریکارڈ کی دستاویزات، صارفین کی معلومات ان کے اے میل اور رابطوں کی فہرستیں شامل ہیں، ہیکنگ کر کے چوری کی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا کے انہیں اس رپورٹ کا علم ہے اور وہ اس پر براہِ راست بات نہیں کریں گے۔ انہوں نے سائبر جاسوسی کو ایک اہم چیلنج قرار دیا اور کہا کہ ہم نے بارہا اس معاملے پر چینی اہلکاروں اور فوجیوں سے بات کی ہے اور کرتے رہیں گے۔

امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ یہ معاملہ ’چینی حکام کے ساتھ تقریباً ہر اجلاس میں زیرِ غور رہا ہے۔‘

چینی وزارتِ دفاع نے اسی بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ چین بھی سائبر جرائم اور جاسوسی کا شکار ہے۔

Click here to submit your review.


Submit your review
* Required Field

No Comments

Post A Comment